ڈاکٹر نما پیشے

ڈاکٹر نما پیشے



اکثر اوقات ’’ ڈاکٹر سردردؔ ‘‘ کی نزدیکی مارکیٹ کے ہر دلعزیز موچیوں،لوہاروں اور قصائیوں سے بحث چھڑ جاتی ہے۔بحث کیا چھڑتی ہے ،وہ خود چھڑ جاتا ہے۔اب آپ خود بتائیے کہ ایک بندہ غلطی سے نیا نیا ڈاکٹر بنا ہواور نکے تھانیدار کی طرح ’’نِکا ڈاکٹر‘‘ کہلاتا ہو۔اس کی ڈاکٹری رگ بھی جوبن پر ہو۔وہ چاہے کہ لوگ اس پر رشک کریں اور محفلوں میں اسے ممتاز قرار دیں۔یہ تاج محل والی ممتاز نہیں ویسی ممتاز ہونے سے اللہ سب کو بچائے۔۔۔تو لوگ اسے محفلوں میں ممتاز یعنی خاص اور نمایاں قرار دیں۔جبکہ ’’ ڈاکٹر سر دردؔ ‘‘اپنے محلے کے قصائی کے پاس گوشت خریدنے کے لئے گیاتو قصائی ایک تیزدھار ٹوکے سے گوشت کے قتلے بناتے ہوئے کہنے لگا کہ ڈاکٹر صاحب قصائیوں اور ڈاکٹرو ں میں فرق ہی کیا ہے ، صرف پانچ چھ سالہ ڈگری کا ، جوکام ڈاکٹر پڑھ لکھ کر کر رہے ہیں ۔وہی ہم سڑک کنارے سر انجام دے رہے ہیں۔یہ بد تمیز انکشاف سن کر ڈاکٹر سر دردؔ کے سر میں درد اور غصے کی زبردست ٹیس اٹھی اوراس کا دل چاہا کہ بکرے کی ران کی جگہ قصائی کی گردن رکھ کرا وپر ٹوکہ چلا دے۔۔۔ڈاکٹر سردردؔ اپنے درد والے سر کو سہلاتے ہوئے بولا۔۔۔

معصوم گائے بھیڑ بکریوں پر سفاکی سے چھری چلانے والے ناہنجار انسان!تجھے کیا خبر کہ ہم کتنی نڈر اور بے باکی سے مینڈکوں،خرگوشوں اور چوہوں پر چھریاں چاقو پھیر پھر کر اس مقام پر پہنچے ہیں کہ ’’ڈاکٹر‘‘ کہلا سکیں۔اور تو نے آنِ واحد میں خود کو ’’اسپیشلسٹ سرجن‘‘ قرار دے دیا۔۔۔

اس ناہنجار قصائی نے ڈاکٹر سردردؔ کے شدید احتجاج پر گوشت بنانا چھوڑ دیا اور ٹوکا لے کر ڈاکٹر کی طرف متوجہ ہوا۔۔۔
ڈاکٹر صاحب!آپ آپریشن کے لئے مریض کے بدن کو چیرا دیتے ہیں ؟
ہاں! دیتے ہیں پھر۔۔۔
آپ لوگ مریض کی کھال وغیرہ بھی اتارتے ہونگے؟
ڈاکٹر سردردؔ کو غصہ آجاتا ہے۔۔۔میں زیادہ کھال نہیں اتارتا۔۔۔میری فیس کم ہے۔۔۔
قصائی ایک خونخوار قہقہ لگاتا ہے اور چھرا اپنے بازو پر رکھ کے کہتا ہے ،ڈاکٹر صاحب میں جیب کی نہیں، انسانی کھال کی بات کر رہا ہوں۔۔۔تو آپ یہ کھال اتارتے ہیں ناں؟
ہاں اتارتے ہیں۔۔۔تم کو اتروانی ہے کیا۔۔۔
نہیں ۔۔۔میں یہ شوق جانوروں پر پورا کر لیتا ہوں۔۔۔آپ یہ بتائیں کہ آپ مریض کا پیٹ چاک کر کے اس کے معدے،جگر اور آنتوں وغیرہ میں بھی ہاتھ چلاتے ہوں گے؟
ہاں یار چلاتے ہیں۔۔۔ڈاکٹر سردردؔ جھنجھلا جاتا ہے۔۔۔تیرے پیٹ میں بھی گڑ بڑ ہے۔۔۔
قصائی بے ہنگم طریقے سے دانت نکالتا ہے۔تو آپ مریض کے فائدے کے لئے اس کے ناسور اور نقصان دہ عضو بھی کاٹتے ہونگے؟۔۔۔
ڈاکٹر سردرد کا سر درد اور غصے سے پھٹنے لگتا ہے۔۔۔ہاں کاٹتے ہیں۔۔۔تمہارا کوئی عضوِ فاضل تمہیں تنگ کرتاہو تو بتاؤ میں ابھی۔۔۔۔۔۔
بس۔۔۔قصائی چھری لہرا کر بحث کا اختتام کرتا ہے۔۔۔بس یہی تو مجھے سننا تھا۔اب آپ دیکھیں۔ہم بھی جانور پر چھری چلاتے ہیں۔اسے چیرا لگاتے ہیں۔آپ کی طرح ہم بھی جانوروں کی کھال اتارتے ہیں۔بلکہ آپ سے کہیں زیادہ بہتر انداز میں اتارتے ہیں۔ہم بھی بکرے وغیرہ کے جگر معدے اور آنتوں سے دو دو ہاتھ کرتے ہیں۔ہم بھی بکرے کے سری پائے اور رانوں پر ٹوکے چلا کر انہیں بکرے سے الگ کر دیتے ہیں۔تو اب آپ خود بتائیے کہ آپ اور ہم میں کیا فرق ہوا۔۔۔بس یہ کہ آپ انسان کے فائدے کے لئے کرتے ہیں اور ہم انسان کے پیٹ کے فائدے کے لئے۔۔۔
ڈاکٹر سردردؔ نے جھنجھلا کر گوشت کا تھیلا اٹھایا اور جانوروں کے سرجن کو خونی نظروں سے گھورتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ابھی اسے اپنی جوتی بھی موچی کو دکھانی تھی جو کہ پرسوں سے کبھی دائیں اور کبھی بائیں اور کبھی بیک وقت دائیں بائیں سے پاؤں کو پریشان کرنے میں لگی ہوئی تھی۔۔۔
ڈاکٹر سردردؔ نے جوتی موچی کے سامنے رکھی۔موچی نے جوتی کو اٹھا کر دائیں بائیں اوپر نیچے سے دیکھا، پھر اسے لوہے کے اسٹینڈ پر رکھ کر ٹھونک بجا کر چیک کیا۔پھر اسے زور زور سے ہلایا، اس کی جو جو تہیں ناراض ہو کر علیحدہ علیحد زندگی گزار رہی تھیں ان کے درمیان جھانکا۔جوتی کے جو دھاگے اور چمڑے خود سری کر کے جوتی کی حدود سے باہر نکلے ہوئے تھے،ان کے کان بھی مروڑ مروڑ کے دیکھ لئے اور آخر میں ڈاکٹر سردردؔ کو جوتی کی خرابیوں،ان کے ممکنہ نقصانات اور متفقہ علاج معالجے کی تفصیل بھی سنا دی۔پھر ڈاکٹر سردردؔ کا راضی نامہ لے کر جوتی پر اپنی پیوند کاری شروع کر دی۔
دورانِ سرجری نائی نے اتفاقأ کہہ دیا کہ ڈاکٹر صاحب !آپ میں اور ہم میں آخر فرق ہی کیا ہے۔آپ بھی مریض کے مختلف زخموں کو دھاگے سے سیتے ہیں، ہم بھی جوتیوں اورکھسوں کے بدتہذیب حصوں کو موچی دھاگے سے درست کرتے ہیں۔آپ مریض کے زخموں پر مرہم لگاتے ہیں۔ہم جوتی کے دو ناراض حصوں میں صمد بانڈ لگا کر انہیں پھر آپس میں ملا دیتے ہیں۔آپ مریض کو ٹیکہ لگاتے ہیں،ہم بھی جوتی کو سوئی سے سیتے ہیں۔آپ مریض کے نقصان دہ اعضاء کاٹ دیتے ہیں۔ہم بھی جوتی کے زائد بال و پر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتے ہیں تو آخر آپ میں اور ہم میں۔۔۔
اس سے قبل کہ موچی کی بات مکمل ہوتی۔ڈاکٹر سردردؔ نے اس نیت سے جوتی موچی کے ہاتھ سے کھینچی کہ اسی مریض کے ہاتھوں اس کی درگت بنائے کہ اس کے سر میں غصے سے پھر زبردست قسم کی ٹیس اٹھی۔اس سے اور تو کچھ نہ بن پڑا۔لہٰذا اَدھ سلی جوتی پاؤں میں ڈال کر ہی واپسی کے راستے کو ہو لیا۔اتنے میں سامنے سے ایک فقیرآتا دکھائی دیا ۔جو کہ پھٹی ہوئی جوتی گھسیٹ گھسیٹ کر چل رہا تھا۔اس سے پہلے کہ وہ فقیر بھی ڈاکٹر سردردؔ کو یہ احساس دلاتا کہ اس میں اور فقیر میں کیا فرق ہے کہ وہ بھی پھٹی ہوئی جوتی۔۔۔
ڈاکٹر سردردؔ نے زبردست قسم کی دوڑ لگائی اور اپنے گھر آکر پناہ لی۔ہانپتے ہوئے سامنے دیکھا کہ اس کا نوکر پورے گھر میں جھاڑو دے کرابھی ہی بیٹھا ہے اور تھکن کا مارا بیچارا زور زور سے سانس لے رہا ہے۔ڈاکٹر سردردؔ نے جب اس کو بھی اپنی جیسی حالت میں دیکھا تو اس ڈر سے سر تھام کر وہیں بیٹھ گیا کہ اب یہ نوکر بھی یہی انکشاف کرے گاکہ اس میں اور ڈاکٹر میں آخر فرق ہی کیا ہے۔وہ طویل آپریشن کے بعد اور وہ پورے گھر کی صفائی کرنے کے بعد ایک جیسی تھکن سے چور۔۔۔آخر اس میں اور ڈاکٹر میں فرق ہی کیا ہے۔۔۔ہائے بیچارے ڈاکٹر سردردؔ کی سردردیاں۔۔۔اور یہ کم نظر معاشرہ۔۔۔اب ڈاکٹر سردردؔ سبزی،کریانے، حجام،بڑھئی،کمہار،لوہار،سنار کسی کی دکان پر بھی جائے تو اسے یہی ڈر رہتا ہے کہ کوئی نہ کوئی نا ہنجار 
ضرورخود کو ڈاکٹر اور اپنے پیشے کو ڈاکٹر نما پیشہ ثابت کر کے اس کے لئے سردرد بن جائے گا۔بیچارہ ڈاکٹرسردردؔ ۔۔۔!!!!

وقار مسعود خان

Home
Other articles:



No comments:

Post a Comment