ہماری بیگم


ہماری بیگم 


خدا کی مہربانی سے ہمیں ایک بے مثال بیگم میسر آئی ہے۔ہو سکتا ہے کہ ہم اِس وقت مبالغہ آرائی سے کام لے رہے ہوں مگر اکثر و بیشتر ہماری رائے کم از کم بیگم کے سامنے یہی ہوتی ہے کہ بیگم صاحبہ کی قابلِ رشک زندگی ہر لحظہ پر فکر واقعات اور یادگار باتوں سے بھری پڑی ہے۔بیگم صاحبہ کسی حد تک محتاط طبیعت اور خیال رکھنے والی خاتون ثابت ہوئی ہیں۔ہم سے عقیدت و محبت کا یہ عالم ہے کہ ہمارے تنہا گھر سے باہر نکلنے سے پہلے خود دروازے سے باہر نکل کر سارا محلہ دیکھتی ہیں مبادہ کسی گھر کے کُھلے ہوئے کھڑکی دروازے یا کواڑ کی اوٹ میں کوئی رقیبِ روسیاہ گھات لگائے بیٹھا ہو۔
ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ ہم صبح سویرے الارم بجنے سے پہلے ہی بستر سے اٹھ گئے۔نہا دھو کر بال سنوارنے میں مشغول تھے کہ محترمہ ادائے کافری کے ساتھ پہلو میں آکھڑی ہوئیں اور چہک کر بولیں۔۔۔
بہت خوب میاں جی !تو آج سے آپ وقت کی پابندی کرنے لگے ہیں۔اچھا ہے انسان پر فخر کرنے کے لئے اُس میں کوئی تو خوبی ہونی چاہئے۔ میاں صاحب نرم وگداز بستر چھوڑ کر بذاتِ خود آفس جانے کی تیاری کر لیتے ہیں یہ کسی معرکے سے کم تو نہیں۔
بیگم کی طرف سے حوصلہ افزائی پر ہم نے سینہ تان کر بڑی محبت سے ان کا شکریہ ادا کیا اور کھانے کی میز پر پہنچے۔کھانے کے بعد ہمیشہ کی طرح انہوں نے دروازے سے باہر نکل کر دور تک حالات کا جائزہ لیا کہ کہیں ہمارے لئے خطرے کا کوئی امکان باقی نہ رہے اور پھر چاہت کے ساتھ ہمیں گاڑی میں بٹھایا۔ہم نے الوداعی ملاقات کرنے کے لئے انہیں قریب بلایا تو شرماتی لجاتی اندر کو دوڑگئیں۔ ہم ابھی دفتر میں پہنچے ہی تھے کہ کرم دین صاحب وارد ہوگئے۔موصوف ہمارے آفس کے مایہ ناز چپڑاسی ہیں۔انتباہی لہجے میں بولے ۔۔۔
وہ جی بیگم صاحبہ کا فون آیا تھا۔پوچھ رہی تھیں کہ صاحب خیریت سے تو پہنچ گئے ہیں۔خیر سے موبائل گھر ہی بھول گئے ہیں۔۔۔
ہم نے مسکرا کر کرم دین کا شکریہ ادا کرنا چاہا تو وہ مزید قریب آکر بڑی رازداری سے بولا۔۔۔
یہ بھی پوچھ رہی تھیں کہ دفتر میں کوئی نئی لڑکی تو ملازمت پر نہیں آئی؟
ہمیں کرم دین یک دم چپڑاسی کی بجائے باس کے عہدے پر نظر آنے لگا۔۔۔
ہم نے انتہائی مسمسی سی صورت بنا کر پوچھا کہ حضرت تو پھر آپ نے کیا جواب دیا؟
کرم دین فوراًپیچھے ہٹا اور پیلے پیلے دانت نکال کر بولا۔۔۔باؤ جی ایسی نازک باتیں گھر والوں کو تھوڑا بتایا کرتے ہیں۔
اُس دن خلافِ معمول کرم دین صاحب اور ہم محمود و ایاز کی پیروی کرتے ہوئے اکٹھے لنچ کرنے گئے اور کرم دین صاحب نے ہمارے ساتھ وفا نبھانے کا احساس دلا دلا کرنہ صرف ہمیں اپنے احسان کے بوجھ تلے دبایا بلکہ بھوکے پیٹ کے ساتھ بھی خوب وفا نبھائی۔
ہم اپنی بیگم صاحبہ پر بہت ناز کرتے ہیں۔ہماری غیر موجودگی میں انہیں ہر دم ہماری فکر لاحق رہتی ہے ۔نجانے کہاں ہونگے،کیسے ہونگے،ہائے کتنی دیر ہو گئی،واپس نہیں لوٹے،جانے کہاں رہ گئے۔گھر کی آہنی الماریوں کی حفاظت بھی وہ خود کرتی ہیں۔اُن کا یہ شکوہ بھی بجا ہے کہ ہمیں اپنی جرابوں ، گھڑی اور موبائل کا خیال تو رہتا نہیں، یہاں تک کہ ہم اپنا بٹوہ تک بھی سنبھال نہیں پاتے تو آہنی الماریوں کی چابیاں کہاں تک سنبھال پائیں گے ۔
پچھلے مہینے دفتر کی طرف سے ہمیں اسلام آباد بھیجے جانے کا لیٹر موصول ہوا۔حسنِ اتفاق یہ کہ چند روز قبل ہمارے دفتر کی پرانی ٹائپسٹ مس نازیہ کا ٹرانسفر بھی اسلام آباد ہوا تھا اور خیر سے ہماری اُن سے ہمیشہ اچھی دعا سلام رہی تھی۔لیٹر ملتے ہی خیال آیا کہ گرمیوں کا موسم ہے ۔اسلام آباد کا موسم خوشگوار ہو گا۔دو روز خوش گوار موسم میں گزر جائیں گے تو بوجھل طبیعت کھل جائے گی ۔بیگم سے سفر کا سامان تیار کرنے کے لئے بات کی تو موصوفہ یہ جان کر ورطۂ حیرت میں ڈوب گئیں کہ ہم دفتر میں اس قدر خاص عہدے پر فائز ہیں کہ ہمیں دفتر کا نمائندہ بنا کر دوسرے شہر بھیجا جا رہا ہے۔اس دن انہوں نے ہماری خاطر تواضع میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ بطورِ خاص ہمارا پسندیدہ بریانی اور قورمہ تیار کیا، شام کو دہی بڑے بنا کر داد وصول کی۔رات کو سونے سے قبل معمول کے مطابق جب محبت و التفات کی باتیں شروع ہوئیں تو بیگم صاحبہ برتھ ڈے کا کیک ثابت ہوئیں۔ابھی ہم نیند کی وادیوں میں کھونے ہی لگے تھے کہ مسحور کن لہجے میں بولیں۔۔۔
سنو جی۔۔۔سنتے ہو!
ہوں۔۔۔ہم نے نیند میں ڈوبے ہوئے لہجے میں پوچھا ،کہو اِس وقت کیا یاد آگیا؟۔۔۔
کچھ دیر خاموش رہ کر بولیں۔۔۔ایک عدد شعر یاد آرہا ہے۔
ہم بڑے خوش ہوئے کہ شاید ہماری محبت اور الفت کے تقاضے پورے ہونے کی اہم گھڑی آن پہنچی ہے اور بیگم رومانٹک لہجے میں کوئی بہت ہی دل نشیں شعر سنانے والی ہیں۔۔۔ 
ہم کسی صورت بیدار ہو کر بولے۔۔۔جی ضرور۔۔۔ضرور۔۔۔ارشاد فرماےئے۔۔۔بندہ ہمہ تن گوش ہے۔
انہوں نے کھنکھار کر گلا صاف کیا اور ایک مرتبہ پھر ہم سے تصدیق کی ۔۔۔کیا سنا دوں؟ہمارے سر ہلانے پر وہ بولیں تو سنو۔۔۔
سفر تنہا نہیں کرتے
سنو ایسا نہیں کرتے
ا’’اگلی شام ڈرائنگ روم میں دو سفری بیگ اپنے مسافروں کا انتظار کر رہے تھے۔‘‘
بیگم صاحبہ کا انتخاب ہمیشہ لاجواب اور انفرادیت کا حامل رہا ہے۔ہمارے لئے ایسے کلر منتخب کرتی ہیں جو بقول ان کے ہم دونوں کے مزاج کے مطابق ہیں۔جس دن بھی اُن کے منتخب کردہ رنگوں والی پینٹ شرٹ پہن کر دفتر جانے کا اتفاق ہوا تو نئی آنے والی مس نادیہ کو علم ہو گیا کہ آج ہمیں بیگم نے بڑے نازو نعم کے ساتھ اپنے ہاتھوں تیار کر کے بھیجا ہے۔ اس دن دفتر کاماحول کم از کم ہمارے لئے کافی خاموش اور کھچا کھچا رہتا تھا۔
ایک دن ہم ایک اہم فائل لے کر باس کے کمرے میں گئے تو باس نے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور پوچھا۔۔۔
برخوردار! ہمارے پاکستان کی آبادی کتنی ہے؟
ہم نے پہلے ادھر ادھر دیکھ کر اطمینان کیا کہ کوئی کان دھرے نہ بیٹھا ہو،پھر کہا۔۔۔سرآٹھ کروڑ ایک۔۔۔
باس پہلے تو حیران ہوئے پھر غصے سے تھرتھراتے ہوئے بولے۔۔۔
احمق ہمارے پاکستان کی آبادی 16 کروڑ ہے ۔۔۔
ہم نے پھر کہا ،نہیں جناب!۔۔۔ہمارے پاکستان کی آبادی آٹھ کروڑ ایک ہی ہے ۔۔۔
باس جھلا کر بولے۔۔۔کس طرح میاں ذرا ہمیں بھی بتاؤ ۔۔۔تو ہم یوں گویا ہوئے۔۔۔
تقی ؔ صاحب شطرنج کے ماہر کھلاڑی ہیں۔کبھی کبھار اُن کے ساتھ بازی لگ جایا کرتی ہے ۔ایسے ہی ایک روز کا قصہ ہے۔تقی ؔ صاحب اپنے لاڈلے بیٹے کے ساتھ شام کے وقت ہمارے گھر چلے آئے۔شطرنج کی بازی عروج پر تھی کہ بیگم چائے کی پیالیاں اٹھائے کمرے میں داخل ہوئیں تو تقیؔ ؔ صاحب کے فرزندِ ارجمند نے عین اسی وقت پوچھا ۔۔۔
انکل!پاکستان کی آبادی کتنی ہے؟۔۔۔
شطرنج کی طرف متوجہ ہونے کی وجہ سے ہم بے دھیانی میں بولے ۔۔۔بیٹا سولہ کروڑ۔۔۔
بیگم جو نزدیکی صوفے پر بیٹھی خواتین ڈائجسٹ کے مطالعے میں مشغول نظر آتی تھیں ،تلملا کر رہ گئیں۔کچھ دیر بعد تقی ؔ صاحب تو بازی درمیان میں چھوڑ کر بچے کو بغل میں دبائے یہ جا وہ جا ہوئے لیکن ہم بیگم کے چہرے پر بارہ بجے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ہم نے بڑے رومانٹک انداز میں پوچھا کہ اعلیٰ حضرت آخر قصہ کیا ہے ۔اِس باغ و بہار کے موسم میں ہمارے آنگن پہ خزاں کیوں چھائی ہے؟۔ تو مابدولت نے بچوں کی طرح خفا ہو کر پوچھا۔۔۔کہو تو پاکستان کی آبادی کتنی ہے؟۔۔۔
سولہ کروڑ۔۔۔ہم نے تعجب سے کہا۔۔۔
پھول اور زیادہ مرجھا گیا،پھر لمبا سانس بھر کر بولیں ۔آئندہ کوئی بھی پوچھے تو پاکستان کی آبادی آٹھ کروڑ ایک بتائیے گا۔ہم نے حیرانگی کے سمندر میں غُوطے مارتے ہوئے بیگم صاحبہ کی مردم شماری سے منسلک غلط اطلاعات اور بے ڈھنگی شماریات پرا حتجاج کیا کہ حضور ایسا کس لئے؟۔۔۔
تو وہ اٹھلا کر بولیں۔۔۔بس تمہارے لئے پاکستان کی آبادی آٹھ کروڑ ایک ہے۔چھوٹے بڑے سب ملا کر آٹھ کروڑ مرد اور ایک میں۔۔۔تمہاری بیگم۔۔۔
یہ قصہ باس کے گوش گزار کرنے کے بعد ہم نے بصد توقیراُن سے پوچھا تو پھر بتائیے سر آپ کے پاکستان کی آبادی کتنی ہے ؟۔۔۔
وہ قہقہہ مار کے ہنس پڑے اور بولے ۔۔۔آٹھ کروڑ ایک۔۔۔چھوٹے بڑے سب ملا کر آٹھ کروڑمرداور ایک ہماری بیگم۔اُس کے بعد ہم واپس اپنی کرسی پر آبیٹھے۔
تو دوستو! گھر میں خواتین کا آنا جانا بڑھ گیا ہے۔کیونکہ بیگم کی ایک بیٹی پیدا ہونے کے بعد پاکستان کی آبادی آٹھ کروڑ ایک سے بڑھ کر آٹھ کروڑ دو ہو چکی ہے ۔ آج بھی ہمیں اپنی بیگم پہ فخر ہے کہ آج کل وہ ہمارا خیال پہلے سے کہیں زیادہ رکھتی ہیں۔کیونکہ گھر میں خواتین کا آنا جانا بڑھ گیا ہے۔


***

وقار مسعود خان

Home
Other articles: 

No comments:

Post a Comment