جوسوتا ہے وہ کھوتا ہے



جوسوتا ہے وہ کھوتا ہے
وقار مسعود خان
سونا یعنی سو جانادنیا کا واحد آرٹ ہے جو ہر شخص جانتا ہے۔اس دنیا میں ہر شخص سوتا ہے اور جو نہیں سوتا اسے بھی بالآخر سونا پڑتا ہے۔یوں تو سونے کے کئی آداب وضع کئے گئے ہیں لیکن یہ انسان کے ذاتی اختیار میں ہے کہ وہ کیسے سونا پسند کرتا ہے۔کوئی آنکھیں بند کر کے سوتا ہے تو کوئی کھول کر،کچھ لوگ تکیے کو بانہوں میں لے کریا گھٹنوں میں دبا کر سو جاتے ہیں۔سوتے ہوئے کسی کا منہ ہکا بکا کھلا رہ جاتا ہے تو کوئی سوتے سوتے میں بھی منہ سے رال ٹپکاناشروع کردیتا ہے۔اصول تو یہی ہے کہ کسی بھی چیز کے رک جانے یا خاموش ہو جانے سے سکون پیدا ہوتا ہے لیکن سونے کے معاملے میں یہ اصول الٹاہو جاتا ہے یعنی کسی کے سونے سے دنیا پر سکون ہوتی ہے تو کسی کے سونے سے ماحول میں ارتعاش پیدا ہونے لگتا ہے۔کسی کے سونے کے لئے لوگ ’’دعائیں‘‘ مانگتے ہیں تو کسی کے ’’نہ سونے‘‘ کے لئے لوگ’’ منتیں ‘‘مانگنے لگتے ہیں۔کسی کے سونے سے رات کی پر اسرار خاموشی میں اضافہ ہونے لگتا ہے تو کسی کے سو جانے سے یوں لگتا ہے جیسے ’’ ہیلی کاپٹر اور جنگی جہاز ‘‘فضائی مشقوں میں مصروف ہوں۔اس طرح کا ایک فرد بھی سو جائے تو کئی دوسرے سونے والوں کی نیند میں در اندازی کا مرتکب ہوتا رہتا ہے۔۔۔یہاں تک کہ ساتھیوں کو اس کی جوتی الٹی کرنی پڑتی ہے یا کسی بندے کو اسے اپنی’’ معطر جرابیں ‘‘ سونگھا کرخراٹوں کا علاج کرنا پڑتا ہے۔

کچھ لوگوں کا تو مشغلہ ہی سونا ہوتا ہے۔صبح اٹھنے کے بعد سونا، دوپہر کے کھانے کے بعد قیلولہ کرنے کے بہانے سونا،رات کے کھانے کے بعد سونا،دفتر میں کام کرتے ہوئے اونگھنا،کلاس روم میں نیند کے غوطے لینا،گریجویٹ اسمبلی کا اجلاس کے دوران سونا،ناظرین و حاضرین کا سیمینار کے دوران ہچکولے کھانا وغیرہ وغیرہ۔۔۔ ایسے لوگوں کو سونے کے لئے کوئی خاص جگہ درکار نہیں ہوتی کیونکہ ان کا کہنا ہوتا ہے کہ نیند کا کیا ہے یہ تو سولی پر بھی آجاتی ہے۔گدھے گھوڑے بیچنے کے بعد بھی آجاتی ہے۔ لہٰذا ان افراد کو ’’سوتو‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔لیکن کچھ لوگ اییسے بھی ہیں جوسونا پسند نہیں کرتے ۔وہ بزرگوں کی اس بات سے ڈرتے ہیں کہ’’ جو سوتا ہے وہ کھوتا ہے ‘‘۔سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ یہ کھوتا کونسے والا کھوتا ہے؟۔۔۔لہٰذا ہم ابھی اس ضرب المثل کے لفظ ’’کھوتے‘‘ کے ذومعنی ہونے پر تحقیق کرنے کے میں مصروف ہیں۔

کبھی کبھی چند مخصوص افراد کا سو جانانقصان کا باعث بن سکتا ہے۔جیسے گلی یا بینک کے چوکیدار کا سو جانا۔۔۔سڑک پر فراٹے بھرتی ہوئی گاڑی کے ڈرائیور کا سو جانا۔۔۔شوہرِ نامدار کا رات کے خبرنامے کے بعد فوراًسو جانا وغیرہ وغیرہ۔۔۔

مغل حکومت جب اپنے دور کے پانچ سات شہنشاہ بھگتا چکی اور تھک گئی تو اس پر نیند نے غلبہ پانا شروع کر دیا اور پھر وہ خوابِ غفلت کی نیند سو گئی ۔یہی وجہ تھی کہ انہیں دہلی پر حملے کرنے والے دلی سے بہت دور نظر آتے تھے ۔ وہ شہنشاہ جاگتی آنکھوں اور سوتے ذہنوں کے ساتھ
مینا و بلبل پکارتے رہتے اور مے و ساغر میں ڈوبے رہتے۔ لہٰذا دشمن سر پر پہنچ گیا اور یہ خوابِ غفلت کی نیند سوتے سوتے ابدی نیند جا سوئے۔۔۔
غالبؔ کے یہاں رات کی بڑی اہمیت تھی۔کہتے ہیں کہ ہر شاعر پر کوئی نہ کوئی رات ایسی گزرتی ہے جب اس پر شاعری چھپڑ پھاڑ کر اترتی ہے۔لہٰذا غالبؔ پربھی ایسی ہی کوئی ستم گر رات گزری ہو گی جب یہ رات بھر شعر لکھنے میں اس قدر کھوئے رہے کہ آس پاس کی راحت و لطافت کا کچھ احساس نہ ہوا ۔۔۔صبح تک ’’ غزل یا بات ‘‘تو شاید نہ بن سکی لیکن رہتی دنیا پر ایک راز منکشف کرتے ہوئے یہ شعر لکھ دیا کہ۔۔۔
بٹھا کے یار کو پہلو میں رات بھر غالبؔ 
جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں
ایسے ہی منیر نیازیؔ ہیں۔۔۔ دیر سے سوتے یا لکھنے پڑھنے میں مگن رہتے اور اسی وجہ سے ’’ ہمیشہ دیر کرتے رہے ‘ ‘۔۔۔
کچھ لوگوں کو بری طرح سے بے خوابی کی شکایت ہوتی ہے۔اس بے خوابی کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ انہیں نیند نہیں آتی بلکہ ان معصوم لوگوں کی شکایت یہ ہوتی ہے کہ انہیں اپنے من پسند خواب نہیں آتے ۔اب کوئی ان سے پوچھے کہ میاں! اگر تم اپنے من پسند خواب دیکھنا شروع کر دوگے تو خدا اپنی مخلوق کی حفاظت کیسے کر پائے گا۔ایسے ہی مزید چند لوگ ہیں جن کی آنکھوں سے نیندبہت دور ہوتی ہے جیسے کاروبار میں پریشانی۔۔۔محبوب کی بے وفائی۔۔۔شادی میں تاخیر یا پسندیدہ جگہ پر شادی کاطے نہ پانا۔۔۔بیرون ملک ویزے کا حصول ۔۔۔پریشان حال ان افراد کو اپنی بے خوابی کی شکایت دور کرنے کے لئے عامل باوابنگالی علم والے،محبوب کو قدموں میں لا گرانے والے یاجل منتر پڑھنے والے کسی نجات دہندہ سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔
انسانی جسم کا تقاضا ہے کہ اسے 24 گھنٹے میں کم از کم چھ گھنٹے کی نیند درکار ہوتی ہے ۔لیکن کبھی کبھی ایسا موقع بھی آجاتا ہے کہ نیند دم دبا کر بھاگ جاتی ہے اور آئے نہیں آتی۔جیسے کوئی بڑا انعام یا لاٹری نکل آئے۔۔۔اچانک کوئی خوش خبری مل جائے۔۔۔محبوب کی یاد میں آہیں بھرنے والے بھی نیند نہ آنے کی شکایت کرتے ہیں۔علاوہ ازیں بندے کی نئی نئی شادی ہو جائے تو بھی رات رات بھر نیند نہیں آتی۔
بعض لوگ آئیڈیل پسند ہوتے ہیں اور سونے کے لئے بھی آئیڈیل جگہ ڈھونڈتے ہیں۔اسی ضمن میں محبوب کی گود کو خاص طور پر ترجیح دی جاتی ہے۔’’ تاکہ غمِ دنیا کی گود میں سر رکھ کرغمِ دنیا سے بے نیاز ہو ا جا سکے۔۔۔
کچھ لوگ سوتے میں بولنے اور چلنے کے عادی ہوتے ہیں۔کچھ بھی ہو جائے یہ اپنی اس کارگزاری کا اقرار نہیں کرتے۔صبح سویرے اگر ان کو بتایا جائے کہ آپ کوغسل خانے،باورچی خانے یا فریج کے نزدیک سے رنگے ہاتھوں پکڑ کر واپس بستر پر لایا گیا ہے،لان میں چہل قدمی کرتے یا راہداری میں ٹہلتے ہوئے دیکھا گیا ہے یا آپ رات کو نیندمیں ’’مجھے نیند نہ آئے ۔۔۔مجھے چین نہ آئے‘‘ جیسا کوئی رومانوی گیت گا کر محبت بھرے الفاظ فلاں بندے کے نام منسوب کر رہے تھے تو یقین کریں یہ لوگ فوراً اپنے کارنامے سے منکر ہو جاتے ہیں لیکن بعد میں پوچھنے کے لئے بے تاب رہتے ہیں کہ کیا واقعی ایسی کوئی بات تھی؟۔
لیجئے موضوع کی مناسبت سے ہم پر بھی ایک عدد نیند میں ڈوبی نظم اتر گئی ہے۔اس سے پہلے کہ ہم بھی غالب جیسا کوئی خطرناک شعر کہہ دیں، نظم لکھنے میں ہی عافیت جانتے ہیں۔۔۔
وہی ظلم کے بیج بوتا ہے
وہی ہنستا ہے وہی روتا ہے
اب چیخ پکار کا شو ر نہیں
اب دونوں میں سمجھوتہ ہے
گھاٹ پہ جانے والا دھوبی
مشین میں کپڑے دھوتا ہے
کل جو کرسی پر بیٹھا تھا
آج اسی کا پوتا ہے
ترقی کا ہے دور پیارے
توکیوں تا نگہ جوتتا ہے
چھوڑ خماری ہوش میں آ
دیکھ زمانہ دوڑتا ہے
کیا تجھ کو یہ معلوم نہیں
جو سوتا ہے و ہ کھوتا ہے



***

وقار مسعود خان

No comments:

Post a Comment